Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر28 آخری قسط

" پلیز معاف کر دو یار مُجھے نہیں پتہ تھا کہ ایسا کُچھ ہو جائے گا۔ میں نہیں بتانا چاہتا تھا چچا جان کو کُچھ مگر اُنہوں نے خود ہی ہماری باتیں سُن لیں تھیں اور وہ برداشت نہیں کر پائے۔ ایک موقع دے دو کبھی کوئی شکایت نہیں ہونے دوں گا پلیز۔" وہ اُس کے قریب آتا اُسے اپنے سینے سے لگاتا اُس کے گِرد محبت کا حصار باندھ گیا اور اُسے دِل کھول کر رونے کا موقع مِل گیا۔ "بلکل اچھے نہیں ہیں آپ۔ بہت بُرے ہیں۔ پہلے میرے ساتھ اتنا غلط کیا پھر بابا جان بھی آپ کی وجہ سے چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ تو مُجھ سے محبت کرتے تھے نہ؟ تو پھر اتنا بُرا کیسے کر دیا میرے ساتھ۔" وہ اپنے مُجرم کے حصار میں کھڑی اُسی سے اُس کے گناہ کا حساب مانگ رہی تھی۔ "جان بوجھ کے کُچھ نہیں کیا میں نے۔ جو ہوا انجانے میں ہوا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تم اتنی رات کو یہاں ہو سکتی ہو۔ یہ فلیٹ میں نے ہماری شادی کے بعد یہاں رہنے کے لیے بنوایا تھا اِس کے بارے میں تو کسی کو پتہ بھی نہیں تھا۔ میں اپنے ہوش و حواس میں اپنی زندگی کے ساتھ کیسے اتنا غلط کر سکتا ہوں؟ جو ہوا اُسے بُرا خواب سمجھ کر بھول جاؤ ہم اپنی نئی زندگی شروع کریں گے اپنے بیٹے کے ساتھ۔ تم بس یہی سمجھ لو کہ تُم میری بیوی تھی تب جب وہ سب ہوا۔ اور بیوی تو تھی تب بھی۔" وہ اُس سے معافی مانگتا اپنی محبت کا یقین دِلاتا آخر میں شرارت سے بولا۔ اور وہ جو اُس کے حصار میں خود کو پُرسکون کر رہی تھی ایکدم بپھر گئی۔ "تب نہیں پتہ تھا کہ شوہر ہیں آپ میرے" وہ غصے سے بولی۔ "چلو اب تو معاف کردو پلیز" وہ اپنی بجائے ساوی کے کان پکڑتا معافی مانگنے لگا۔ "آئیندہ کبھی مجھے ہرٹ نہیں کریں گے۔" ساوی نے پوچھا۔ "کبھی نہیں پرامس" "میری ہر بات مانیں گے۔" "ہر بات مانوں گا۔" "ہمیشہ مُجھ سے پیار کریں گے۔" "ہمیشہ ہر روز تمہارے لیے میری محبت میں اضافہ ہو گا کبھی کمی نہیں آئے گی۔" "یہ فلیٹ بیچ دیں گے۔" "ہاں بیچ۔۔۔۔ کیا؟ وہ روانی میں کہتا ایک دم چونکا۔ "ہاں مجھے یہاں نہیں رہنا یہاں سے بہت بُری یادیں جُڑی ہیں میں جب جب یہاں آوں گی مجھے وہ سب یاد آئے گا۔ اور میں نہیں چاہتی کہ مُجھے وہ سب یاد آئے میں سب کُچھ بھول جانا چاہتی ہوں۔" ساوی اُس کے سینے سے سر اُٹھائے اُس کی طرف دیکھتی گویا ہوئی۔ "ٹھیک ہے جیسا میری چڑیا کہے گی ویسا ہی ہو گا۔ اب کہہ دو کہ معاف کر دیا مجھے ہر غلطی ہر گُناہ کے لیے۔" وہ معافی طلب کرتا کہنے لگا۔ "معاف کر دیا ہر غلطی ہر گُناہ کے لیے صرف اپنے بچے اپنی محبت اور بابا کے لیے کیونکہ میں جانتی ہوں وہ آپ سے لاکھ خفا ہوجائیں مگر آپ کو بے چین اور پریشان کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے اور میں نہیں چاہتہ کہ بابا کی روح بے سکون رہے ۔" ساوی پھر سے اُس کے سینے پر سر رکھتی سکون سے آنکھیں موندتی بولی۔ "تھینکیو تھینکیو سو مچ۔ آئیندہ کبھی ایسا موقع نہیں دوں گا کہ تُمہیں مجھ سے خفا ہونا پڑے اتنی محبت دوں گا کہ چچا جان مجھے معاف کردیں گے۔" وہ اُس پہ گرفت مضبوط کرتا پُراعتماد لہجے میں بولا۔ "وہ خوش ہوں گے ناں میرے فیصلے سے؟ اُس نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا۔ "ہاں بہت خوش ہوں گے۔" درید نے اُسے بازوں میں اُٹھایا اور بیڈ پہ لٹا دیا۔ وہ یک ٹک درید کی طرف دیکھ رہی تھی آج اُس کے چہرے پہ انوکھی سی خوشی تھی ورنہ اُس نے واپس آنے کے بعد درید کو ہمیشہ اُداس اور بے چین ہی دیکھا تھا اور اُس کی وجہ کبھی سمجھ نہیں پائی تھی مگر آج جب اُس نے درید کو معاف کر دیا تھا تو اُس کی بے چینی بھی ختم ہوگئی تھی۔ "کیا دیکھ رہی ہو؟" اُس کی توجہ خود پہ دیکھ کے درید نے پوچھا۔ "دیکھ رہی ہوں آج آپ کے چہرے پہ الگ ہی خوشی ہے۔" اُس نے صاف گوئی سے کہا۔ "یہ سب تُمہاری معافی اور تُمہارے ساتھ کی مرہونِ منّت ہے شکریہ مجھے معاف کرنے اور ایک اور موقع دینے کے لیے۔" وہ اُس پر جھکتا ہوا بولا تو وہ رُخ موڑ گئی ۔ "مجھے نیند آرہی ہے۔" اُس نے شرارتی لہجے میں کہا۔ "مگر مجھے نہیں آرہی بلکل بھی اب نو بہانہ۔" وہ اُس کا رُخ اپنی طرف موڑتا اُس پر ایک بار پھر جھکنے لگا کہ ریں ریں کی آواز پر ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا اور اُس کی حالت دیکھ کے ساوی بے ساختہ کھلکھلا اُٹھی۔ "اُف اِسے بھی ابھی اُٹھنا تھا ظالم سماج مُجھے اپنی ہی بیوی کے قریب نہیں ہونے دیتا۔" درید نے منہ بسورتے ہوئے دُہائی دی اور شاہ میر کو دیکھا جو اب ساوی کی گود میں تھا اور وہ اُسے لے کر اِدھر سے اُدھر ٹہلتی چُپ کرا رہی تھی۔ درید چُپ کر کے بیڈ پر جا کر لیٹ گیا اور اپنی آنکھوں پہ بازو رکھتا آنکھیں موند گیا۔ ساوی نے اُس کی طرف دیکھا اور مسکراتی ہوئی شاہ میر کو بہلانے لگی۔ ادھے گھنٹے بعد جب شاہ میر سو گیا تو وہ اُسے بیڈ کی ایک سائیڈ پہ احتیاط سے ڈالتی دوسرے طرف تکیے رکھنے لگی پھر خود درید اور شاہ میر کے درمیان آکر لیٹ گئی۔ کُچھ دیر وہ دُرید کے بولنے کا انتظار کرتی رہی مگر کوئی جواب نہ آیا تو شاہ میر کی طرف رُخ کے کے درید کی طرف سے کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر گئی۔ اچانک درید نے ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنی طرف کھینچا کہ اُس کی پُشت درید کے سینے سے ٹکرائی۔ وہ اُسے اپنے بانہوں کے گھیرے میں لیتا اُس کی گردن میں منہ چُھپا گیا۔ کہ وہ بے اختیار کسمسائی۔ "چُپ کر کے سوجاؤ بہت تھک گیا ہوں تھوڑا سکون دے دو۔" اپنے کان میں درید کی التجائیہ سرگوشی سُنتے وہ اپنی کمر پہ پڑے درید کے ہاتھ کو اپنی ہاتھ میں لیتی وہ آسودگی اور طمانیت سے آنکھیں موند گئی۔ محرم کی قربت اور محبت بھرے حصار میں پُرسکون سوئی وہ لڑکی خوش قسمت تھی جو اُس کے حصے میں ایسا مرد آیا تھا جو اپنی انا اور مردانگی کے زعم میں گُناہ کر کے اُس سے کنارہ کش نہ ہوا تھا بلکہ اپنا گُناہ قبول کر کے اپنے حصے کی سزا بھگت کے اپنی محرم کی قربت میں خود کو ایک لمبے عرصے کے بعد پُرسکون محسوس کر رہا تھا۔


اگلی صبح دس بجے وہ گھر واپس آگئے تھے سب ساوی کی یاداشت آنے پر خوش ہوئے تھے اور اُن کی خوشی اِس بات پہ بڑھ چکی تھی کہ وہ درید کو معاف کر چکی تھی۔ شایان نے جب درید کو گلے لگایا تو وہ حیران ہوا تھا شایان کے چہرے پر اُس کے لیے وہی سچی محبت تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی اور پھر شایان نے اُسے معافی کا پروانہ دے کر اُس کے چہرے اور دل کی خوشی بڑھا دی تھی۔ افرحہ اور ساوی کی تو باتیں ہی ختم نہیں ہو رہیں تھیں دونوں نے بچے اُن کے والد صاحبان کے حوالے کر دیئے تھے اور خود خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ "انمول بیٹا پلیز چُپ کر جاو دیکھو ہاتھ جوڑتا ہوں باپ کی بات مان لو۔" شایان انمول کو لیے اِدھر سے اُدھر ٹہلتا چپ کرنے کی منتیں کر رہا تھا. "تیری بیٹی نہیں چُپ پونے والی۔ دیکھ میرا بچہ کتنا شریف ہے بلکل چپ بیٹھا ہوا ہے۔" درید نے شایان کی حالت دیکھتے استہزایہ لہجے میں کہا۔ "میری بیٹی بھی بہت شریف ہے بس ابھی پتہ نہیں کس بات کا غصہ آگیا میری پرنسس کو۔" شایان نے اپنی معصوم پری کا چہرہ دیکھتے کہا۔ "ہاں وہ تو دِکھ ہی رہا ہے۔" درید نے دانت نکالے۔ "اُف شان کیا کرتے ہیں ایک بچی نہیں سنبھل رہی آپ سے۔" افرحہ جو کب سے انمول کو روتے دیکھ رہی تھی اور برداشت نہ ہوا تو ساوی کے پاس سے اُٹھ کر ان کی طرف چلی آئی ساوی بھی اُس کے پیچھے ہی تھی۔ "یہ لو تُم سنبھالو مُجھ سے تو چُپ ہی نہیں ہو رہی۔" شایان نے کہتے ہی انمول کو افرحہ کی گود میں دیا جو اُس کی گود میں آتے ہی چپ ہو گئی جس پر افرحہ نے فخریہ شایان کی طرف دیکھا۔ "کیا ایسے مت دیکھو سارا دن تمپارے پاس ہوتی ہے اور رات کو میرے آنے دے پہلے سو جاتی ہے۔اِس لیے میرے ساتھ اتنی مانوس نہیں ہے اور مجھ سے چپ نہیں ہوتی۔" شایان نے دانت پیستے کہا جس پر سب ہنس پڑے۔ "لائیں اسے مجھے دیں۔" ساوی نے شاہ میر کو درید سے اپنی گود میں لیا۔ "آفس کی چھٹی ہو گئی آج مگر کیا فائدہ بور ہی ہو رہا ہوں میں۔" شیان نے صوفے پہ تِرچھا لیٹتے کہا۔ "تو چلے پھر باہر چلتے ہیں۔" درید نے مشورہ دیا۔ "اوکے پھر شاپنگ بھی کریں گے ہے نہ ساوی" افرحہ خوشی سے چہکی۔ "ہاں بلکل ضرور کریں گے" ساوی نے تائید کی تو شایان اور درید ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے۔ یار یہ لیڈیز کو پتہ نہیں شاپنگ میں کیا نظر آتا ہے؟ درید نے آہ بھری۔ "درید۔" ساوی نے خفگی سے دیکھا۔ "جی میری چڑیا ہم چلیں گے شاپنگ کرنے بھی۔ دل کھول کے کریں کوئی منع نہیں کرے گا۔" ساوی کی ناراض نظریں دیکھتا وہ بات گھما گیا۔ اُس کے انداز پہ سب ہنس دئیے۔ بھئی تم لوگ جاو میں گھر میں ہی لنچ کروں گی مجھے سے باہر نہیں جایا جاتا۔ نادیہ بیگم کچن سے آتے ہوئے بولیں۔ "مگر ماما۔۔۔۔" ساوی نے کہناچاہا "نہیں میری گُڑیا تُم لوگ جاو میں تھک جاتی ہوں اور میری فکر مت کرو بوا ہیں میرے ساتھ۔" نادیہ اُس کی بات کاٹ گئیں۔ "اچھا ٹھیک ہے مگر آپ اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا ہم جلدی آجائیں گے۔" ساوی نے اُن کو ہدایات کرتے کہا۔ "اچھا ٹھیک اب تُم لوگ جاو اور جانے کی تیاری کرو۔" نادیہ بیگم نے پیار سے کہا اور سب ہی ماں بیٹی کی محبت پر مسکرا دیے۔ آدھے گھنٹے بعد وہ چاروں تیار ہو کے اپنے بچوں کو اُٹھائے گھر سے نکلے تھے اور اُن کو ایک ساتھ دیکھ کر نادیہ بیگم نے دِل سے اُن کی دائمی خوشیوں کی دُعا کی تھی۔


پہلے انہوں نے لنچ کیا تھا جس کا بل شایان نے درید کی جیب سے پے کروایا تھا جس پہ درید ہنس کر رہ گیا تھا۔اور پھر وہ شاپنگ مال گئے تھے۔ شاہ میر کو شایان نے اور انمول کو درید نے اُٹھا رکھا تھا کہ شایان کا کہنا تھا کہ انمول اُس کے پاس آتے ہی رونے لگتی ہے۔ ساوی اور افرحہ مگن سی شاپنگ کر رہیں تھی۔ اپنے لیے بچوں کے لیے اور اپنے بچوں کے باپوں کے لیے وہ دل کھول کے شاپنگ کر رہیں تھیں۔ شایان اور درید جو پہلے بچوں کو اُٹھائے اُن کے پیچھے چل رہے تھے اب اُن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ " کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم بزنس مین ہیں مجھے تو میں آیا لگ رہا ہوں۔" درید کے ساتھ چلتے شایان نے کہا جس پہ درید مشکل سے ہنسی روک پایا۔ "تمہیں آیا والی فیلنگ آرہی ہے اور مُجھے زن مرید والی۔" درید نے اُس کے روہانسے چہرے کو دیکھتے ایک آنکھ دباتے کہا۔ "تیرے والی فیلنگ زیادہ اچھی ہے اب مجھے بھی وہی فیلنگ آرہی ہے" شایان نے بتیسی دِکھاتے کہا اور پھر وہ دونوں اپنی بیویوں کے پیچھے گئے جو ایک شاپ میں داخل ہو رہیں تھیں۔ بالآخر تین سے چار گھنٹوں میں افرحہ اور ساوی کی شاپنگ مکمل ہوئی تو اُنہوں نے اپنے شوہروں پہ ترس کھاتے گھر جانے کا عندیہ دیا جس پہ وہ بھاگتے ہوئے گاڑی تک پہنچے کہ کہیں وہ ارادہ نہ بدل دیں۔ جس پہ افرحہ اور ساوی کھلکھلا کر ہنس دیں۔


ڈنر اُنہوں نے نادیہ بیگم کے ساتھ ہی کیا تھا اور ساوی اور افرحہ نے اُن کو ساری شاپنگ بھی دِکھائی۔ ساوی نے نادیہ بیگم کے لیے بھی شاپنگ کی تھی جو انہیں بہت پسند آئی تھی۔ اُن کے شوہر بچوں سمیت پہلے ہی روم میں جا چکے تھے وہ دونوں بھی تھکی ہوئیں تھیں تو جلد ہی اپنے اپنے کمروں میں چلیں گئیں۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روم کی لائٹ آف تھی۔ سائڈ لیمپ جل رہا تھا۔ انمول بے بی کاٹ میں سو رہی تھی جب کہ شایان بستر پر دراز تھا۔ اُسے نظر نہ آیا کہ وہ سو رہا ہے یا نہیں۔ وہ نائٹ ڈریس نکالتی ڈریسنگ روم چلی گئی اور چینج کر کے باہر آئی۔ ایک دفعہ انمول کو چیک کیااور پھر اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی۔ ابھی اُس نے سونے کے لیے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ اُسے اپنی کمر کے گرد حصار سا مجسوس ہوا اُس نے جھٹ آنکھیں کھول کر شایان کی طرف دیکھا جس کی گہری بولتی نگاہیں کُچھ اور ہی داستاں سُنا رہیں تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں موجود جذبات کی روانگی دیکھ کر وہ کسمسائی پر شایان کی گرفت اُس کی کمر پہ سخت ہوتی گئی۔ "بب بہت تھک گئی ہوں۔" وہ منمنائی۔ "میں بھی۔" "پھر سس سونے دیں۔" "میں نے کہا میں تھک گیا ہوں۔" "ہاں تو سو جائیں نا آرام کریں گے تو تھکاوٹ اُتر جائے گی۔" اُس نے مشورے سے نوازا۔ "آہاں میری تھکاوٹ آرام کرنے سے اُترے گی؟" وہ اُس کو معنی خیز نظروں سے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ "ہہ ہاں۔" ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ وہ کُچھ پل اُسے دیکھتا رہا پھر ایکدم اُس کی گردن پہ جُھکا کہ وہ کانپ سی گئی۔ "شش شان!" اُس کی آواز حلق میں اٹک گئی۔ دل کی دھڑکن میں اچانک یہ اضافہ کیسا۔۔❤ اُسکے ہونٹوں پہ کہیں نام ھمارا تو نہیں۔۔۔۔😍😍 شان کی آوز سرگوشی کی صورت اُس کے کانوں میں گونجہی اور وہ اُس کی آواز میں جذبات کی شدت محسوس کرتی آنکھیں میچ گئی۔ "میری تھکاوٹ تمہاری قربت میں اُترتی ہے جانم۔ تُمہاری قربت مجھے سکون دیتی ہے آئیندہ جب میں کہوں کہ میں تھک گیا ہوں تو یہ مت کہنا کہ آرام کریں ورنہ سزا تُمہیں ہی ملے گی اور تُم میری سزا کی نوعیت جانتی ہو۔" وہ اُس کے کانوں میں رس گھولتا اُس تنبیہ کرتا معنی خیزی سے کہہ رہا تھا۔ وہ اُس کی بات سُن کر آنکھیں کھولتی اُس کے سینے پہ سر ٹکا گئی اور ایک ہاتھ اُس کے دِل کے مقام پہ رکھتی اپنا نام لکھنے لگی۔ اُس کی حرکت پہ دلکشی سے مسکراتا وہ اُس کی خودسپردگی کے انداز کا قائل ہوا اور اُسے خود میں سمیٹتا آسودگی سے مسکرا اُٹھا۔


ساوی روم میں آئی تو درید شاہ میر کو سینے پہ لٹائے لٹائے ہی سو چُکا تھا۔ ساوی کو اُس پہ بے ساختہ پیار سا آیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر شاہ میر کو جھولے میں ڈالا اور خود چینج کرنے چلی گئی۔ کُچھ دیر بعد وہ باہر آئی اور بیڈ پر درید کے قریب لیٹتی اُس کے سینے پہ سر رکھ گئی۔ درید نے ہلکی سی آنکھیں کھول کے اُسے دیکھا اور ایک ہاتھ اُس کی کمر پہ ٹکاتا اُسے خود سے قریب کر گیا۔ ساوی نے اُس کے ماتھے پہ بِکھرے بال سمیٹے اور اُس کے کان کے قریب جھکی۔ دو ہی چیزیں ہیں مُجھ میں ایک روح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا تُو ❤ اُس کی سرگوشی اپنے کانوں میں سُنتا وہ آنکھیں کھولتا کروٹ بدل گیا کہ ساوی اُس کے وجود میں چُھپ سی گئی اور وہ مکمل اُس پہ چھا گیا۔ چل آ اک ایسی "نظم" کہوں جو "لفظ" کہوں وہ ہو جائے،، بس "اشک" کہوں تو اک آنسو تیرے گورے "گال" کو دھو جائے ،، میں "آ" لکھوں تو آجائے میں "بیٹھ" لکھوں تو آ بیٹھے،، میرے "شانے" پر سر رکھے تو میں "نیند" کہوں تو سوجائے،، میں کاغذ پر تیرے "ہونٹ" لکھوں تیرے "ہونٹوں" پر مسکان آئے ،، میں "دل" لکھوں تو دل تھامے میں "گم" لکھوں وہ کھو جائے ،، تیرے "ہاتھ" بناؤں پنسل سے پھر "ہاتھ" پہ تیرے ہاتھ رکھوں ،، کچھ "الٹاسیدھا" فرض کروں کچھ "سیدھااُلٹا" ہوجائے ،، میں "آہ" لکھوں تو ہائے کرے بےچین لکھوں "بےچین" ہوتو،، پھر میں بےچین کا "ب" کاٹوں تجھے "چین" زرا سا ہو جائے،، ابھی "ع" لکھوں تو سوچے مجھے پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے،، جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو میں "عشق" لکھوں تجھے ہوجائے ۔۔!!! وہ اُس کے کانوں میں سحر پھونک رہا تھا اور وہ اُس کے سحر میں گُم ہوتی جا رہی تھی۔ اُس نے سر اونچا کیا اور اپنے محرم کی پیشانی پر محبت بھرا بوسہ دیا۔ اُس کی محبت پہ وہ مسکرایا اور گہری بولتی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگا کہ بے اختیار ساوی کی ہتھیلیاں نم ہوئیں۔ "دد دُرید۔" وہ اُس کی قربت سے گھبراتی بول اُٹھی۔ "شش ریلیکس سب ٹھیک ہے کُچھ نہیں ہوا" وہ اُس کے کندھے سہلانے لگا۔ جانتا تھا سب یاد آنے کے بعد سے وہ اُس سے گھبرانے لگی ہے مگر وہ آہستہ آہستہ ٹھیک کر لے گا اُسے اپنی محبت پہ اتنا یقین تو تھا۔ وہ اُس کے چہرے کے ہر نقش پہ اپنی محبت کی مہر لگاتے اُسے پُرسکون کرتا اُس پہ جھکا اور اُسے اپنی محبت اپنے عشق کی داستاں سُنانے لگا۔ اُس نے ساوی کو کسی نرم کانچ کی گُڑیا کی طرح خود میں سمیٹا کہ ساوی خود کو موم کی گُڑیا تصور کرنے لگی جسے زرا سی سختی توڑ کر رکھ دیتی۔ درید کی محبت میں پگھلتی وہ اُس کی قربت میں مہکتی جا رہی تھی۔ اور درید اپنی برسوں کی تشنگی اُس کی قربت میں مٹا رہا تھا۔ باہر چاند کی چاندنی روشن تھی جو اگلے آنے والے روشن دِن کی گواہ تھی۔


ایک سال بعد۔۔۔ عانیہ کی شادی ہو چُکی تھی اور وہ اپنے ہزبینڈ کے ساتھ خوش تھی اُسے خدا نے بہترین سے نوازا تھا اور وہ خدا کا شکر ادا کرتی نہ تھکتی تھی۔ بے شک خدا کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اشعر اپنے کیے پر شرمندہ تھا وہ گھر آکر ساوی اور سب گھر والوں سے معافی بھی مانگ چُکا تھا اور سب اُسے معاف بھی کر چکے تھے۔ اب وہ بزنس میں بزی ہو گیا تھا۔ اُس کا نکاح اُس کے آفس میں کام کرنے والی لڑکی سے ہو چکا تھا۔ وہ اُسے پسند کرتا تھا تو رشتہ بھیجنے میں دیر نہیں کی۔ حنا بیگم اور وقار صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ اِس طرح سادگی سے ہی نکاح ہوا تھا اور رخصتی اگلے سال رکھی گئی تھی۔ حنا بیگم نے اپنے تلخ رویے کی معافی مانگی تھی کہ وہ ساوی اور دُرید کے رشتے کی حقیقت نہ جانتی تھیں۔ نادیہ بیگم نے کھلے دل سے اُنہیں معاف کر دیا تھا اور اب دونوں فیمیلیز کے تعلقات پھر سے اچھے ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔ درید ساوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھتا تھا۔ شاہ میر بھی ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا۔ جبکہ انمول بھی ڈیڑھ سال کی ہونے والی تھی۔ دونوں بچے سارا دن ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہوتے رہتے دونوں کی چہکاروں سے گھر میں رونق لگی رہتی تھی۔ نادیہ بیگم تو زیادہ تر اپنے نواسے اور پوتی کے ساتھ ہی مگن رہتی تھیں۔ درید اور شایان باقاعدگی سے مراد صاحب کی قبر پہ جاتے تھے جہاں جاتے ہی اُن کی آنکھیں نم ہو جاتیں مگر جانے والوں کے ساتھ جایا نہیں جاتا اُن کے بغیر جینے کی عادت ڈالنا پڑتی ہے۔ وہ بھی جینا سیکھ گئے تھے مگر مراد صاحب کی کمی سب کو محسوس ہوتی تھی۔ اُن کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا تھا۔ سب اپنی زندگیوں میں خوش تھے دُکھوں کے بادل چھٹے تھے اور ساری تکلیفیں اور مشکلیں دور ہوئی تھیں خدا کی رحمت سے وہ ایک دوسرے کی محبت پا گئے تھے وہ مایوس نہیں ہوئے تھے اور خدا نے اُنہیں اُن کے صبر کا پھل دیا تھا۔ اور اب یونہی اُن کی زندگی ایک دوسرے کے سنگ محبت سے عشق کی منازل طے کرتے ہوئے گُزرنی تھی۔

   2
0 Comments